Orhan

Add To collaction

چاند دیکھکر

" جو بھی ہے۔۔۔ ہو گا تو وہی جو ایوب چاہے گا' آخر اس گھر کا سب سے ذہین ' وجیہہ اور کماؤ لڑکا ہے' پھر میں اس کی ماں ہوں کچھ حق ہے میرا۔۔۔ ارمان ہیں میرے۔" تائی نے منہ بسورا۔

" ہاں توفریدون پہ کر لینا یہ ارمان پورے۔" دادی نے خفگی سے گھورا۔

" دیکھ بہو! انوشے پڑھی لکھی ہے' خوب صورت ہے' اج کل کے طور طریقے جانتی ہے' سب سے بڑھ کر باہر سے آ رہی ہے۔ خوب دولت کمائی ہے اس کے باپ نے' سب کچھ اسی کا تو ہے۔ آج کل کے لڑکے یہی چاہتے ہیں۔"

" اپ نے میرے ایوب کو بھی ایسا سمجھ لیا۔" تائی کا غصہ دیدنی تھا ۔ وہ برتن سمیٹنے لگی۔

نجانے کیوں کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا ' وہ عصر کی نماز ادا کر کے باہر برامدے میں آ بیٹھی ۔ رمضان المبارک کی وجہ سے عموما اس وقت گھر کے سب افراد سو رہے ہوتے تھے۔ ایوب اور فریدون اپنے اپنے کام پر ہوتے تھے۔ وہ یونہی تخت پر بیٹھی لا یعنی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی جب اطلاعی گھنٹی بج اٹھی۔

" یہ اس وقت کون ہو سکتا ہے؟" وہ پاؤں میں چپل اڑس کر باہر کی طرف بڑھی۔

گیٹ کے باہر گاڑی کی اواز تھی ' یہ تو ایوب کی گاڑی کی اواز تھی۔ اس نے گھبرا کر گیٹ کھول دیا۔۔۔۔ شاید طبعیت خراب ہو گئی ہو۔۔۔۔ گیٹ کھولنے پر اسے فریدون کا چہرا نظر آیا جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ برابر والی سیٹ پر نظر پڑی تو دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا' ہاتھ پاؤں میں پسینہ آنے لگا' پیچھے بھی جو دو نفوس بیٹھے تھے' ان کی نظریں اس وجود پر تھیں۔

" السلام و علیکم ابو!" نہایت مودب انداز میں سلام کیا تھا اس نے ' انہوں نے اس کے سر پر دھیرے سے ہاتھ رکھا اور اندر بڑھ گئے۔ انوشے اور ماما نے تو لمحہ بھر رکنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی ۔

" یہ یوں اچانک؟" وہ فریدون کی طرف مڑی۔

" خطرہ! ان کو تم سے اور تمہیں ان سے۔۔۔۔ صبا ' ان کے اور تمہارے درمیان ایوب نامی علاقہ ہے جسے فتح کرنے کی جنگ ہے۔" فریدون نے مسکراتے ہوۓ کہا' اس نے سر جھکا لیا۔

" جنگ وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس ہتھیار ہوں۔۔۔ میں تو خالی ہاتھ ہی نہیں۔۔۔ خالی دامن اور خالی دل بھی ہوں۔" وہ رو پڑی۔ فریدون اس کی نطروں سے سمجھ چکا تھا کہ وہ اس کے بھائی کو پسند کرتی ہے۔

" سب کچھ ایوب پر منحصر ہے۔۔۔۔ تم اس سے کھل کر بات کیوں نہیں کرتیں؟" فریدون کا لہجہ سنجیدہ تھا۔

"کیا۔۔۔؟" اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔۔۔۔ فریدون تو نجومی نکلا۔

" یہی کہ تم ایوب نامی علاقے کو فتح کرنا چاہتی ہو' حکومت کرنا چاہتی ہو۔"

" میں اتنے اونچے خواب نہیں دیکھتی فریدون اور کہنے کی جرات نہیں۔۔۔۔ وہ پتا نہیں کیا سمجھیں۔۔۔ مجھے تو بس رہنے کو ٹھکانہ چاہیے۔" اس نے انسو صاف کیے۔

" غلط' بالکل غلط۔۔۔ رہنے کو تو ٹھکانہ میں بھی دے سکتا ہوں ' مگر جانتا ہوں کہ تمہیں اس گھر کے علاوہ کہیں' کسی کے دل میں بھی رہنے کی جگہ چاہیے اور وہ دل ایوب سلیمان کا ہی ہے۔"

   0
1 Comments

Khan sss

29-Nov-2021 10:50 AM

Good

Reply